جب شہید ہوئے تو جنگ کے حالات تھے ان کا جسد خاکی ان کے گاؤں نہیں پہنچایا جاسکتا تھا اس لیے ان کوو ہیں محاذ پر ہی امانتاً دفنا دیا گیا۔تقریباً ایک ماہ کے بعد ان کے جسد خاکی کو وہاں سے نکال کر ان کے گاؤں میں لایا گیا ‘ مگر ان کے دادا نے کسی کو بھی شہید کا دیدار نہ کرنے دیا۔
اس عظیم شہید کی شہادت کے تین سال بعد کی کہانی سنانے سے پہلے میں ان کی حیات پر ایک نظر ڈالنا چاہوں گا:۔
سوار محمد حسین شہید 18 جون 1949 کو ڈھوک پیربخش کے مقام پر پیدا ہوئے۔ تین ستمبر 1966ء کو پاک فوج میں بھرتی ہوئے۔ پاک فوج میں بھرتی ہونے کے بعد آپ نے ڈرائیونگ میں مہارت حاصل کی۔1971ء کی پاک بھارت جنگ میں سوار محمد شہید نشان حیدر20 لانسر کے ساتھ خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ 5 دسمبر 1971ء کو سوار محمد حسین شہید نشان حیدرشکرگڑھ کے محاذ پر جاکر نوجوانوں کو اسلحہ اور بارود پہنچا رہے تھے۔6دسمبر 1971ء کو وہ ایک لڑاکا اور پرخطر مہمات میں ان کے ہمراہ جاتے رہے۔ 10 دسمبر 1971ء کو سوار محمد حسین شہید نے دشمن کو ہرار خورد گاؤں میں مورچے کھودتے دیکھ کر یونٹ کمانڈر کو اطلاع دی۔ سوار محمد حسین شہید کی ذاتی کوششوں سے دشمن کے 16 ٹینک تباہ ہوئے۔ دس دسمبر کو ہی چار بجے سوار محمد حسین شہید (نشان حیدر) اپنےا یک رائفل سے دشمن کو ٹھکانے لگاتے ہوئے گولیوں کی بوچھار میں شہید ہوئے۔میجر امان اللہ کی سفارش پر سوار محمد حسین شہید کو نشان حیدر سے نوازا گیا۔آپ کی شادی 1971ء میں ہوئی۔آپ کی اولاد میں ایک بیٹی اور ایک بیٹا شامل ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سوار محمد حسین شہید نشان حیدر ابھی دیوی ہائی سکول میں زیرتعلیم تھے لیکن ان کے دل میں وطن سے بھرپور محبت کا جذبہ موجود تھا۔ آپ نے پرائمری تک تعلیم جھنگ پیرو میں حاصل کی۔ آپ گھر میں شلوار قمیص یا تہبند باندھتے تھے۔جنگ پر جانے سے پہلے آپ کے والد محترم نے آپ کو سفید کپڑوں کا ایک جوڑا دیا۔ سوار محمد حسین شہید اکثر واقعہ کربلا دہرایا کرتے تھے اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی جرأت و شجاعت پر جھوم جھوم جایا کرتے تھے۔آپ جب شہید ہوئے تو آپ کی جیب سے سو روپے‘ایک منی آرڈر اور دو خون آلود خط برآمد ہوئے۔جب سوار محمد حسین شہید کی شہادت کی خبر ان کے والد کو دی گئی تو ان کے پہلے الفاظ یہ تھے کہ ’’محمد حسین شہید نے کہیں میدان جنگ میں بزدلی تو نہیں دکھائی‘‘۔میدان جنگ میں جب ان کے ساتھیوں سے پوچھا گیاکہ ان کاجذبہ کیا تھا تو ساتھی بتاتے ہیں کہ سوار محمد حسین شہید کو وطن کی خاطر جان قربان کرنے کا بہت شوق تھا۔وہ بہت زیادہ جذبے سے لڑرہے تھے اور ہروقت اپنے ساتھیوں کا مورال بلند کرتےرہتے تھے۔رات کو آگ جلا کر سب کو مختلف طریقوں سے خوش کرتے‘ لطیفے سناتے۔
درج بالا معلومات تو شاید کافی لوگوں کومعلوم ہوں گی مگر اب جو میں بتانے جارہا ہوں وہ بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ سوار محمد حسین جب شہید ہوئے تو جنگ کے حالات تھے ان کا جسد خاکی ان کے گاؤں نہیں پہنچایا جاسکتا تھا اس لیے ان کوو ہیں محاذ پر ہی امانتاً دفنا دیا گیا۔تقریباً ایک ماہ کے بعد ان کے جسد خاکی کو وہاں سے نکال کر ان کے گاؤں میں لایا گیا ‘ مگر ان کے دادا نے کسی کو بھی شہید کا دیدار نہ کرنے دیا۔تقریباً تین سال کے بعد پاک فوج نے آپ کا مزار بنانے کیلئے آپ کا تابوت مبارک قبر سے نکالا تو دادا نے علماء کرام کے مشورے سے تابوت کو صرف چہرے کے حصے سے کھولا تو ماشاء اللہ اب بھی خون تازہ تھا اور پورا علاقہ خوشبو سے بھرگیا۔ پورے گاؤں نے تسلی سے شہید کا دیدار کیا۔ شہادت کے تیسرے سال بھی وہ ایسے ہی تھے جیسے ابھی ابھی انہیں شہید کیا گیا ہو۔ بے شک شہید کو موت نہیں ہے۔ میری آنکھوں کے سامنے آج بھی وہ منظر بالکل تازہ ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں